گریزپا

( گُریزپا )
{ گُریز (ی مجہول) + پا }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ اسم 'گریز' کے ساتھ فارسی مصدر 'پاتیدن' سے مشتق صیغۂ امر 'پا' بطور لاحقۂ فاعلی لگانے سے مرکب 'گریزپا' بنا۔ اردو میں بطور متعلق فعل استعمال ہوتا ہے۔ ١٧٠٧ء کو "کلیات ولی" میں مستعمل ملتا ہے۔

متعلق فعل
١ - بھاگنے کے لیے تیار، گریزاں، فرار پر آمادہ۔
 مجھ سے گریز پا ہے تو ہر راستہ بدل میں سنگ راہ ہوں تو سبھی راستوں میں ہوں      ( ١٩٧٤ء، نایافت، ٢٣ )
٢ - [ مجازا ]  ناپائیدار، بےثبات، کمزور۔
"وقت ہر حقیقت کو نیست و نابود کر دیتا ہے وقت گریز پا ہے اور یہی اس کی اصل حقیقت ہے۔"      ( ١٩٨٦ء، صیحیفہ، لاہور، اپریل، جون، ٨ )
٣ - وہ لونڈی یا غلام جو اکثر گھر سے بھاگ جایا کرے۔
"اپنی ذاتی بدسرشتی سے بے حکم گریز پاگنہگار غلاموں کی طرح بھاگ گیا۔"      ( ١٨٩٧ء، تاریخ ہندوستان، ١٥٠:٨ )
  • بےثَبات
  • ناپائیدار
  • Fugitive
  • runaway