گزند

( گَزَنْد )
{ گَزَنْد }
( فارسی )

تفصیلات


اصلاً فارسی زبان کا لفظ ہے۔ اور بطور اسم مستعمل ہے۔ اردو میں فارسی سے ماخوذ ہے اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے ١٦٤٩ء کو "خاور نامہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
١ - دکھ، تکلیف، رنج، مصیبت۔
"مکھیوں کی گزند سے بچانے کے لیے ایک ہی وار میں اس کا کام تمام کر چکا ہوتا۔"      ( ١٩٨٥ء، مولانا ظفر علی خاں بحیثت صحافی، ٦٥ )
٢ - صدمہ، دھچکا، نقصان، گھاٹا، خسارہ، زیان، چوٹ، کسک۔
"یہ یادیں اتنی تابندہ اور پاکیزہ ہیں کہ ان کی بازیافت میں نہ حال کو کسی گزند کا احتمال ہے اور نہ مستقبل کو کسی نقصان کا خطرہ ہے۔"      ( ١٩٧٩ء،چھ رنگین دروازے (کلیات میر نیازی) (دیباچہ)، ١١ )
٣ - ٹوک یا جادو کا اثر۔
 زلف کے مارے کو مارو نہ کبھی پڑھ کر ماش نہیں افعی کا یہ کانا ہے گزند جادو    ( ١٩٤٥ء، کلیات ظفر، ١٩٦:١ )
٤ - دیو، جن یا بھوت پریت کا اثر، نظر بد کا اثر۔
 تو سلیمان شان ہے شاہا اور ہوا تیرا سمند دیوو جن کی تاب کیا پہونچا سکیں تجھکو گزند    ( ١٨٥٨ء، سحر (نواب علی خاں)، قصائد سحر، ٣٢ )
٥ - بدبختی، بدنصیبی۔ (پلیٹس)
  • چَوٹ
  • خَسارہ
  • اَذِیَّت
  • Injury
  • hurt
  • harm;  loss
  • damage;  mischief;  misfortune
  • calamity