گڑبڑ

( گَڑْبَڑ )
{ گَڑ + بَڑ }
( سنسکرت )

تفصیلات


گھٹا  گَڑْبَڑ

سنسکرت سے ماخوذ اسم 'گڑ' کے ساتھ تابع اسم 'بڑ' لگنے سے 'گڑ بڑ' بنا۔ اردو میں اسم اور گا ہے بطور اسم صفت استعمال کیا جاتا ہے۔ ١٦٩٧ء کو "دیوان ہاشمی" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
١ - درہم برہم، تہ و بالا۔
"شہرخالی کرانے کا حکم ملا اور پھر سب کچھ گڑ بڑ ہو گیا۔"      ( ١٩٧٠ء، قافلہ شہیدوں کا (ترجمہ)، ١٣١:١ )
٢ - ٹیڑھا، پیچیدہ، الجھا ہوا۔
"ادبی سطح پر معاملہ کچھ گڑ بڑ ہے۔"      ( ١٩٨٣ء، مذاکرات، ٨٦ )
٣ - ناہموار، سنگلاخ، (زمین)۔
 زمانے کو اے نوح حیرت نہ کیوں ہو کہ طوفان ایسا زمین ایسی گڑ بڑ      ( ١٩٣٣ء، اعجاز نوح، ٨٣ )
٤ - گڈ مڈ، خلط ملط، رکاوٹ۔
 اتنا ہی غم کھلاؤ جو تم خود بھی کھا سکو اس بے تکے حساب میں گڑ بڑ نہ ہو حساب      ( ١٩٤٢ء، سنگ و خشت، ٦٥ )
اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
١ - الجھن، دشواری، جھمیلا، جھنجھٹ۔
"یہ گڑبڑ صرف اس وجہ سے ہوتی ہے کہ یہ بات طے نہیں کی گئی کہ کون سے چیز صنف ہے اور کون سے ہیت۔"      ( ١٩٨٣ء، اصناف سخن اور شعری ہیئتیں، ١٣ )
٢ - جھگڑا، ہنگامہ، فساد، خلفشار۔
"جلسہ گاہ کے ایک کونے میں کچھ لوگوں نے جو خاص طور پر بخشی کی شہ پر آئے تھے گڑ بڑ کرنے کی کوشش کی۔"      ( ١٩٨٢ء، آتش چنار، ٧٠٢ )
٣ - بےقاعدگی، بدنظمی، بےترتیبی، ابتری۔
"ایک کے معنی یہ ہیں کہ ادب میں اور نہ صرف ادب میں بلکہ پورے نظام خیال میں جس کا اظہار اس معاشرے کے کلچر میں ہو رہا ہے سخت گڑبڑ، سخت انتشار اور بحران موجود ہے۔"      ( ١٩٦٦ء، نئی تنقید، ١٢ )
٤ - رکاوٹ، خلل۔
"مرزا خورشید عالم کچھ زمانے کے لیے حیدرآباد سے چلے گئے تھے، اس لیے ان کی تنخواہ میں گڑبڑ پڑ گئی تھی۔"      ( ١٩٤٠ء، احسن مارہروی، انشائے داغ، ٨٠ )
٥ - شوروغل۔
"اچھا کیا کہ اوپر آگئے۔ ہوا کا اتنظام بھی خوب ہے گڑ بڑ بھی نہیں ہے۔"      ( ١٩٣٢ء، ریزہ مینا، ١٢٦ )
٦ - قراقر، پیٹ کے بولنے کی آواز، آواز شکم۔ (ماخوذ: فرہنگ آصفیہ)
  • بَدنَظْمی
  • پَریشانی
  • In confusion
  • in a muddle
  • jumbled
  • mixed up;  higgledy-piggledy
  • topsy-turvy;  miscellaneous
  • motley
  • promiscuous;  rough
  • rugged
  • uneven (ground).