گل دستہ

( گُل دَسْتَہ )
{ گُل + دَس + تَہ }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ اسما 'گل' اور 'دستہ' کو ملانے سے مرکب 'گل دستہ' بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٧٠٧ء کو "کلیات ولی" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - مختلف پھولوں کا گچھا، ان شاخوں کا بندھا ہوا گچھا جن پر پھول کھلے ہوں۔
 پہنچے گلدستہ ہائے خوش رنگ غنچے کی طرح کھلا دل تنگ      ( ١٩٣٧ء، نغمۂ فردوس، ١١٩:١ )
٢ - محراب یا طاق جہاں اذان دیتے ہیں۔
"تین بجے رات کے بعد گلدستے پر تمجید و تحلیل شروع ہو جاتی ہے۔"      ( ١٩٤٤ء، سوانح عمری و سفر نامہ حیدر، ٢٢١ )
٣ - خصوصی رسالہ جس میں عموماً شعرا کا طرحی کلام شائع ہو۔
"آپ نے جو گلدستہ نکالا ہے اس کا کیا طور ہے اگر شعر و شاعری سے متعلق ہے تو ایک پرچہ بھیج دیں۔"      ( ١٩٠٤ء، تاریخ نثر اردو، ٦٠٦:١ )
  • A handful of roses;  a bunch of flowers;  a nosegay