قلفی

( قُلفْی )
{ قُل + فی }
( عربی )

تفصیلات


عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم 'قفلی' کا محرف ہے۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٦٩٧ء کو "دیوان ہاشمی" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
جمع   : قُلْفِیاں [قُل + فِیاں]
جمع غیر ندائی   : قُلْفِیوں [قُل + فِیوں (و مجہول)]
١ - دودھ ملائی کی برف کا سانچا، سانچے میں جمائی ہوئی برف۔
"میں نے اپنے الفاظ کو قلفی کی طرح برف میں جما کر بڑے ادب سے کہا۔"      ( ١٩٨٧ء، شہاب نامہ، ٧٠٧ )
٢ - ڈھکنے دار پٹاری کی وضع کا برتن۔
"ایک قلفی چینی کی معجون سے بھری ہوئی دی۔"      ( ١٨٠٢ء، باغ و بہار، ١٠٧ )
٣ - [ بخاری ]  زلفی .... کواڑ اور چوکھٹ کے بازو میں جڑی ہوئی آہنی یا پیتلی زنجیر جس کی وجہ سے کواڑ چوکھٹ سے علیحدہ نہیں کیا جاسکتا، زلفی کے بجائے کڑا بھی لگایا جاتا ہے، اس کو اصطلاحاً گرد انگ اور قلفی بھی کہتے ہیں۔ (اصطلاحات پیشہ وراں، 39:1)
٤ - [ بھنڈے برداری ]  ضامن، کہنی، گلٹی، نیچے کی سانسنی کے بیچ کا جوڑ جس کی وجہ سے نے حسب خواہش ہر طرف موڑی جا سکتی ہے۔ (اصطلاحات پیشہ وراں، 101:7)