یہ عربی زبان کا لفظ ہے، فارسی میں 'آونوس' اور یونانی میں 'Ebenos' مستعمل ہے۔ قرین قیاس ہے کہ عربی میں یونانی سے آیا ہو، البتہ یہ واضح ہے کہ اردو میں 'عربی' سے ہی آیا ہے اور اردو میں سب سے پہلے ١٦٤٩ء میں "خاورنامہ" میں مستعمل ملتا ہے۔
جمع غیر ندائی : آبْنُوسوں [آب + نُو + سوں (و مجہول)]
١ - [ نباتات ] ایک درخت جس کی لکڑی بہت سخت اور نہایت سیاہ ہوتی ہے اورجو پانی میں ڈوب جاتی ہے (اس سے عموماً کنگھیاں، سنگھار دان، قلمدان اور دوسرا نفیس سامان بنایا جاتا ہے)۔
"یہ معلوم ہوتا ہے کہ آبنوس میں لعل و یاقوت جڑے ہوئے ہیں۔"
( ١٩٣١ء، مکتوبات عبدالحق، ٣:٢ )