کافور

( کافُور )
{ کا + فُور }
( عربی )

تفصیلات


عربی زبان سے مشتق اسم جامد ہے۔ عربی سے اردو میں حقیقی معنی و ساخت کے ساتھ داخل ہوا اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٥٦٤ء کو "رسالہ فقۂ دکنی" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی
١ - دور، نیز غائب۔
"خدا کی قدرت کہ پرچہ نکلتے ہی وہ رنگ جما کہ مایوسیاں دور اور بدگمانیاں کافور۔"      ( ١٩٣٧ء، انشائے ماجد، ١٧٩:٢ )
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - سفید اور تیز خوشبو کا گوند (ریزش) جو اس نام کے درخت کی سفید لکڑی سے نکلتا ہے، کھلا رہنے سے اور آنچ پاکر اڑ جاتا ہے، عموماً مُردے کے جسم پر ملتے ہیں، پھوڑے پھنسی کے مرہم میں ڈالتے ہیں اور اونی کپڑوں میں رکھتے ہیں، جس سے کپڑا نہیں لگتا، کپور۔
"اسی طرح کافور جیسی عام استعمال کی چیز بھی . قدرتی نامیاتی مرکب ہے۔"      ( ١٩٨٠ء، نامیاتی کیمیا، ٣٦٥ )
٢ - جنت میں موجود تین چشموں میں سے ایک کا نام۔
"بہشت میں تین چشمے جاری ہیں، ایک کا نام کافور اور دوسرے کا نام زنجیل اور تیسرے کا نام سلسبیل ہے۔"      ( ١٨٤٨ء، بہشت نامہ، ٨ )
  • کَپُور
  • کَرْپُور
١ - کافور (ہو جانا| ہونا)
دور ہونا، دور ہٹنا، زائل ہونا، غائب ہونا۔"ٹینی کا غصّہ پہلے ہی کافور ہو چکا تھا۔"      ( ١٩٨٤ء، کیمیا گر، ١٣١ )
بھاگ جانا، رفوچکر ہو جانا، چمپت ہونا، فرار ہو جانا، اپنی راہ لینا۔ کیا شوخ مزاج تھی جوانی میری پیری سے ملا کے آپ کافور ہوئی      ( ١٩٧٢ء، شاد عظیم آبادی، رباعیات، ٥٣ )
سفید ہونا۔ لازم ہے کفن کی یاد ہر وقت انیس جو مشک سے بات تھے وہ کافور ہوئے      ( ١٨٧٤ء، انیس (مہذب اللغات) )
بے جوش ہونا، بیزار ہونا، اکتا جانا۔ گرمی عشق جو نکلی ہوئی ٹھنڈے مرزا میری صورت سے بھی کافور ہوئے بیٹھے ہیں      ( ١٩٢١ء، دیوان ریختی، ٦٥ )
٢ - کافور ملنا
مردے کے کفن پر کافور لگانا، میت کے ساتوں اعضائے سجدہ پر حنوط کرنا۔ نہیں ہم وہ بسمل کہ ہو جائیں ٹھنڈے وہ تھکتے ہیں لاشے پہ کافور مل کر      ( ١٨٩٥ء، دیوان راسخ دہلوی، ١٠٤ )