جمالی

( جَمالی )
{ جَما + لی }
( عربی )

تفصیلات


جمل  جَمال  جَمالی

عربی زبان سے ماخوذ اسم 'جمال' کے ساتھ 'ی' بطور لاحقۂ نسبت لگنے سے جمالی بنا۔ اردو میں بطور صفت اور گاہے بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٧١٨ء میں "دیوان آبرو" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت نسبتی ( واحد )
١ - جمال کی طرف منسوب (جلالی کی ضد)؛ شان رحمت کی تجلی، منسوب بہ جمال الٰہی۔
"اس کو اللہ تعالٰی سے دو نظریں ایک جلالی اور دوسری جمالی عنایت ہوئی ہے یعنی ان پر دو حالتیں طاری ہوتی ہیں۔"    ( ١٨٦٤ء، تحقیقات چشتی، ٣٦٦ )
٢ - جمالی بمعنی خوبی اور حسن کی طرف منسوب۔
"اس کے کام کی اچھائی اور برائی کا معیار وہ صفات بن جاتی ہیں جو جمالی حیثیت سے قبیح مگر میکانکی حیثیت سے ناگزیر ہوتی ہیں۔"    ( ١٩٤٤ء، آدمی اور مشین، ١٨ )
٣ - اللہ کا وہ نام جو جلالی نہ ہو، جس سے جلال کی صفت ظاہر نہ ہوتی ہو۔
"پہلی صورت میں یہ اسم جمالی ہو گا۔"    ( ١٩٠٦ء، الحقوق و الفرائض، ٣٣:١ )
٤ - جمالیات کا ماہر و عالم۔
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - عمل یا تعویذ وغیرہ جس میں خدا کی شان جمالی ظاہر ہونے کی خواہش ہو۔
 ہنسا کے بجلی کو ابرو رویا جگا کے سورج کو چاند سویا یہ نقش ہستی ہے اعتباری کہیں جلالی کہیں جمالی      ( ١٩٣١ء، بہارستان، ٥٨١ )
٢ - [ تصوف ]  نباتات، جیسے : پیاز، لہسن وغیرہ (کا چھوڑ دینا) چناں چہ ترک جمالی سے یہی مراد لیتے ہیں۔ (فرہنگ آصفیہ؛ نوراللغات)
  • A kind of musk-melon (red-fleshed)