ارتفاع

( اِرْتِفاع )
{ اِر + تِفاع }
( عربی )

تفصیلات


رفع  اِرْتِفاع

عربی زبان سے اسم مشتق ہے۔ ثلاثی مزید فیہ کے باب افتعال سے مصدر اور اردو میں بطور حاصل مصدر مستعمل ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٧٧٥ء کو "نوطرز مرصع" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم حاصل مصدر ( مذکر - واحد )
١ - زمین یا سمندر یا اور کسی سطح سے کسی چیز کی بلندی، اونچائی۔
"مینار مسجد کا ارتفاع اسی گز کا ہے۔"    ( ١٩١١ء، ظہیر، داستان غدر، ٥٥ )
٢ - سطح زمین، افق یا کسی اور مقام سے بلندی پر جانا، مرتفع ہونا، بلندی کی طرف اٹھنا یا اٹھایا جانا۔
"کل بعد ارتفاع آفتاب کے یہ مقدمہ ساتھ اصلاح کے رو دیتا ہے یا ساتھ نزاع کے۔"    ( ١٨٥٥ء، غزوات حیدری (ترجمہ)، ٥١٧ )
٣ - پہاڑ یا درخت وغیرہ کا بلند ترین حصہ، چوٹی۔
بعض پہاڑ اس میں اتنے بلند ہیں کہ جن کا ارتفاع قریب ٢٥ میل کے ہے۔    ( ١٩٢١ء، القمر، ٣٢ )
٤ - بلند درجہ، عظمت کی اعلٰی منزل۔
 ہاں اے زبان مرقع قدرت دکھا مجھے اے ذہن ارتفاع ثبوت دکھا مجھے    ( ١٩٢٧ء، شاد، ظہور رحمت، ١١٦ )
٥ - درجہ یا حیثیت کی بلندی، ترقی۔
"اوقاف کی بہبود و ارتفاع کے لیے بھی کوشش فرماتے ہیں۔"      ( ١٩٣٢ء، مشاہدات، ٢٦ )
٦ - (کسی متقابل یا ضد کا) معدوم ہو جانا، اٹھ جانا، مٹ جانا، اجتماع کی ضد۔
"جب عینین میں تناقض نہیں تو ان کی نقیضوں کا ارتفاع جائز ہوا۔"      ( ١٨٧١ء، مبادی الحکمہ، ٣٣ )
٧ - [ ہیئت ]  سیارے کا افق سے سمت الراس (نوے درجے) تک مسافت طے کرنا۔
"اصطرلاب لے کر پھر ارتفائے شمس دیکھنے دھوپ میں گیا۔"      ( ١٩٠١ء، الف لیلٰی، سرشار، ٣٠٣ )
٨ - [ ہندسہ ]  مثلث کی بلندی، قاعدے سے نقطہ مماس تک کا اقل فاصہ؛ وہ خط جو قاعدے سے نقطہ مماس تک عموداً کھینچا جائے۔
"اگر ارتفاع اسطوانہ کو اس کے قاعدے کے محیط میں ضرب کریں تو حاصل اس کی سطح بیرونی ہو گی۔"      ( ١٨٩٤ء، تسہیل الحساب، ٧٦ )
٩ - [ بدیع ]  شعر میں کسی چیز کا ذکر کریں اور مسلسل اس کی ترقی کے درجے بنائے جائیں۔ (بحرالفصاحت)
١٠ - [ لسانیات ]  صدائی یا صوتی لہروں کی بلندی، صدائی لہروں کے تین عناصر (تواتر، محل اور ارتفاع) میں سے ایک، (انگریزی) Amplitude۔
"اس میں تین عناصر خاص طور پر قابل لحاظ ہوتے ہیں : (١) ارتفاع، یعنی مقام صفر سے انحراف۔"      ( ١٩٧٠ء، ادب اور لسانیات، ابواللیث صدیقی، ٢٤٩ )
  • elevation
  • exaltation;  height;  ascent;  grandeur;  prosperity