عربی زبان سے مشتق اسم 'صبوح' کے ساتھ 'ی' بطور لاحقۂ نسبت ملنے سے 'صبوحی' بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے اور سب سے پہلے ١٧٠٠ء کو "من لگن" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔
"اگر میں فردوس گیا تو بھی وہاں کیا خاک لطف آئے گا اگر وہاں صبوحی پی بھی تو جام بلور زہرہ صبح اور اور ابر کا جھوم جھوم کر آنا کہاں۔"
( ١٩٨٧ء، نگار، کراچی، (سالنامہ)، ٧٩ )
٢ - [ تصوف ] محادثہ (گفتگو) سالک با حق مراد ہے کہ جس سے سالک کو سرور اور عیش نصیب ہو تو ہے۔ (مصباح التعرف، 157)۔
the morning draught of wine; a bottle for holding wine