دلالی

( دَلاّلی )
{ دَل + لا + لی }
( عربی )

تفصیلات


دلل  دَلال  دَلاّلی

عربی زبان اسم مشتق 'دلال' کے ساتھ فارسی قاعدے کے تحت 'ی' بطور لاحقۂ کیفیت لگائی گئی ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٦٤٠ء کو "کشف الوجود" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
جمع   : دَلّالِیاں [دَل + لا + لِیاں]
جمع غیر ندائی   : دَلّالِیوں [دَل + لا + لِیوں (و مجہول)]
١ - دلالی کے پیشہ کی اجرت۔
"تمام بندر گاہوں کی دولت بہ سبب دلالی . تمام شہروں سے زیادہ ہوتی ہے۔"      ( ١٩١٢ء، روزنامچہ سیاحت، ٢٩٨:٣ )
٢ - [ مجازا ]  ثالثی، بیچ بچاؤ، سیاسی داو پیچ۔
"ان حالات میں سیاست کی گنجائش بالکل نہیں ہوتی، دلالی اور کمیشن ایجنٹی چلتی ہے۔"      ( ١٩٨٧ء، جنگ، کراچی، ٩ جنوری، ٣ )
٣ - دلال کا کام، عمل یا پیشہ۔
"یقیناً بھٹک جاتا۔ چلمیں بھرتا، دلالی کرتا یا پھر کسی تخت پوش کے نیچے گھس کر قلاقند یا گلاب جامنیں کھا رہا ہوتا۔"      ( ١٩٨٠ء، ماس اور مٹی، ١٣ )
٤ - کٹناپہ، چالاکی، عیاری۔
"کچھ دن تک گویہ راز سر بستہ کی پر افشا نہ ہوا اور میری چالاکی اور دلالی کا مطلب حاصل ہو گیا۔"      ( ١٨٩٢ء، خدائی فوجدار، ١٣٢:٢ )
٥ - [ دوکانداری ]  تاجر یا بیوپاری کی طرف سے بازار میں تجارتی مال کے فروخت کرنے کا طریقۂ کار۔ (ا پ و، 44:7)