دم ساز

( دَم ساز )
{ دَم + ساز }

تفصیلات


فارسی زبان سے اسم جامد 'دم' کے ساتھ 'ساختن' مصدر سے فعل امر 'ساز' لگایا گیا ہے۔ اردو میں معنی اور ساخت کے اعتبار سے بعینہ داخل ہوا۔ اردو میں سب سے پہلے ١٦٤٩ء کو "خاور نامہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی
١ - ہم دم، ہم راز، ہم درد، ساتھ دینے والا، ہم طور، ہم رنگ۔
 کبھی ٹھہراؤ سا تیرے جنوں میں کبھی وحشتیں دم ساز کیا کیا      ( ١٩٨٤ء، سمندر، ٢٨ )
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - ساز کے ذریعے یا اس کے ساتھ آواز نکالنے والا، گانے یا نفیری وغیرہ میں ساتھ گا کر آس دینے والا۔
 کیا عجب ہو گئے مجھ سے میرے دم ساز جدا دور فونوں میں گلے سے ہوئی آواز جدا      ( ١٩٢١ء، اکبر، کلیات، ١٩٨:٢ )