دم بریدہ

( دُم بُرِیْدَہ )
{ دُم + بُرِی + دَہ }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے اسم جامد 'دم' کے ساتھ 'بریدن' مصدر سے حالیہ تمام 'بریدہ' لگایا گیا ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٨٨٦ء کو "آیات بینات" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - وہ جس کی پونچھ کٹی ہوئی ہو، دم کٹا؛ ناقص۔
"تقیے کو دم بریدہ کر دیا۔"      ( ١٨٨٦ء، آیات بینات،١، ٨٧:٢ )
٢ - تراشا ہوا، کاٹ کر کم کیا ہوا۔
"انگرکھا، اچکن اتارو اور دم بریدہ کوٹ پہنو۔"    ( ١٩١٦ء، اشک خون، ١٤ )
٣ - محدود، گھٹایا ہوا، کم کیا ہوا، گھٹا ہوا، ناقص۔
"کالجوں کی دم بریدہ تعلیم فارسی ادب کا صحیح ذوق پیدا نہیں کر سکتی۔"    ( ١٩٧٤ء، مسائل اقبال، ١٤ )