دم درود

( دَم دُرُود )
{ دَم + دُرُود }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے مرکب ہے۔ لفظ 'دم' کے ساتھ اس کا مترادف 'دُرود' زور پیدا کرنے کے لیے لگایا گیا ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٦٨١ء کو "جنگ نامہ سیوک" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - [ مجازا ]  طاقت، دم خم، مقابلے کی قوت۔
"لاش کے پاس گئی شانہ پکڑ کے ہلایا، ان بے چاری میں مطلق دم درود نہ تھا۔"      ( ١٩٣٤ء، اودھ پنچ، لکھنؤ، ١٩، ٤:٤٥ )
٢ - درود شریف، دعا یا کوئی اسم پڑھ کر پھونکنے کا عمل؛ عاملوں کا پیشہ۔
"گنڈا تعویذ اور دم درود کے حصول کے لیے دور دراز کا سفر اختیار کر کے مشہور و معروف عاملوں سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔"      ( ١٩٨٤ء، پٹھانوں کے رسم و رواج، ١٤٣ )