عاشق نامراد

( عاشِقِ نامُراد )
{ عا + شِقے + نا + مُراد }
( عربی )

تفصیلات


عربی زبان سے مشتق اسم 'عاشق' کے آخر پر کسرۂ صفت لگانے کے بعد 'نا' بطور حرف نفی لگانے کے ساتھ عربی ہی سے مشتق اسم 'مراد' لگانے سے مرکب 'عاشق نامراد' بنا۔ اردو میں بطور اسم مستعمل ہے اور سب سے پہلے ١٩٤٢ء کو "سنگ و خشت" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( واحد )
١ - ناکام عاشق۔
 خیر وہ جس طرح بھی ہے آپ کو اس سے کیا غرض چھوڑیئے ذکر اے حضور عاشقِ نامراد کا      ( ١٩٤٢ء، سنگ و خشت، ٦٣ )