آبگینہ

( آبْگِینَہ )
{ آب + گی + نَہ }
( فارسی )

تفصیلات


آب  آبگین  آبْگِینَہ

فارسی زبان میں 'آب' کے ساتھ 'آگین' لگا کر مرکب بنایا گیا اور پھر 'آبگین' کے ساتھ 'ہ' بطور 'لاحقۂ تشبیہہ' لگا، اور فارسی سے اردو میں داخل ہوا۔ اردو میں سب سے پہلے ١٧١٨ء میں "دیوان آبرو" کے قلمی نسخہ میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : آبْگِینے [آب + گی + نے]
جمع   : آبْگِینے [آب + گی + نے]
جمع غیر ندائی   : آبْگِینوں [آب + گی + نوں (واؤ مجہول)]
١ - شیشہ، بلور، کانچ۔
 یہ کس کے جلوے مضطر ہیں قمر کے آبگینے میں یہ کون آ کر سمایا جا رہا ہے میرے سینے میں      ( ١٩٤٢ء، اخترستان، ١٦٠ )
٢ - صراحی، مینا، شیشۂ مے۔
 شفق نہیں ہے یہ افلاک نے تری شب وصل بھرا ہے شادی کا تنبول آبگینوں میں      ( ١٨٢٤ء، مصحفی : انتخاب رام پور، ١٦٤ )
٣ - الماس
"ارسطو نے اس کو آبگینے کی اقسام میں لکھا ہے۔"      ( ١٨٧٧ء، عجائب المخلوقات اردو، ٢٨٣ )
  • lit. "Possessed of luster or clearness";  mirror
  • looking-glass;  drinking-glass;  bottle;  wine;  diamond