عالم بالا

( عالَمِ بالا )
{ عا + لَمے + با + لا }

تفصیلات


عربی زبان سے مشتق اسم 'عالم' کے آخر پر کسرۂ صفت لگانے کے بعد ہندی سے ماخوذ لفظ 'بالا' لگانے سے مرکب 'عالم بالا' بنا۔ اردو میں بطور اسم مستعمل ہے اور سب سے پہلے ١٧٠٧ء کو "کلیات ولی" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
١ - اس کائنات سے پرے روحوں اور فرشتوں کا جہاں، عقبٰی (عالم سفلی یا زیریں کے مقابلے میں)۔
"مدینہ کا قبرستان آج اس جسم کو آغوش میں لیتا ہے، جس کی روح پاک ملائکہ عالم بالا پر لے گئے۔"      ( ١٩٣١ء، سیدہ کا لال، ٦٠ )
٢ - کرہ زمین سے اوپر کا حصہ، فضائے آسمانی۔
"آج کل تحت الثریٰ کے کاموں میں پھنسا ہوا ہوں اور آپ جو کام لینا چاہتے ہیں اس کا تعلق عالم بالا سے ہے۔"      ( ١٩٨٨ء، اردو، کراچی، اکتوبر، ١٧٧ )