کبڑا

( کُبْڑا )
{ کُب + ڑا }
( پراکرت )

تفصیلات


پراکرت زبان سے ماخوذ اسم 'کُبَڑ' کے ساتھ 'الف' بطور لاحقۂ فاعلی لگانے سے بنا۔ اردو میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٨٠٢ء کو "نقلیات" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
جنسِ مخالف   : کُبْڑی [کُب + ڑی]
واحد غیر ندائی   : کُبْڑے [کُب + ڑے]
جمع   : کُبْڑے [کُب + ڑے]
جمع غیر ندائی   : کُبْڑوں [کُب + ڑوں (و مجہول)]
١ - کوبڑ والا، ٹیڑھی پشت والا، جس کی کمر جھکی ہوئی ہو، کوزہ پشت۔
"ایک اندھے نے کبڑا نوکر رکھا۔"      ( ١٩٨٥ء، قومی زبان، کراچی، جولائی، ٥٩ )
٢ - ٹیڑھا، بیچ میں سے ابھرا ہوا۔
"گاؤں کے آس پاس، بہتی ہوئی ندیاں . چھوٹی کشتیاں، ٹیڑھے، کبڑے گھاٹ، مانجھیوں کے آوارہ نغمے۔"      ( ١٩٨٦ء، اردو گیت، ٩٧ )
  • کُبّا
  • کُبْجا
  • Hump-backed;  crooked