ارزش

( اَرْزِش )
{ اَر + زِش }
( فارسی )

تفصیلات


اَرْزِیْدَن  اَرْزاں  اَرْزِش

پہلوی زبان کے لفظ 'ارز' سے فارسی میں مصدر 'ارزیدن' بنا جس سے حاصل مصدر 'اَرْزِش' ہے۔ اردو میں ١٧٩٥ء کو قائم کی "مختار اشعار" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم حاصل مصدر ( مؤنث - واحد )
١ - قیمت، عوضانہ۔
 نہ رہیں جو ہوش ترے بجا، سمجھ اس کو ارزش یک نظر اگر ان کے جلوے پہ مر گیا تو جزاے دید ہوئی ادا      ( ١٩١٧ء، نقوش مانی، ٤٢ )
٢ - [ مجازا ]  قدر و قیمت، وقعت۔
"قصیدہ و غزل میں صلہ و تحسین بہ اقتضاے بخت قسمت ہے نہ باندازۂ ارزش کلام۔"      ( ١٨٦٣ء، خطوط غالب، ٤٥٣ )
٣ - فروختگی، بکنا، قیمت لگنا۔
 نہیں ہے مشتری جس کا وہ جس نارواہوں میں رہا محتاج ارزش، میں متاع کارواں ہو کر      ( ١٩١١ء، ظہیر، دیوان، ٥٤:٢ )