جملۂ معترضہ

( جُمْلَۂِ مُعْتَرِضَہ )
{ جُم + لَہ + اے + مُع + تَرِضَہ }
( عربی )

تفصیلات


عربی زبان سے ماخوذ اسم 'جملہ' کے آخر پر ہمزہ زائد لگا کر کسرۂ صفت لگا کر عربی اسم صفت 'معترضہ' لگانے سے مرکب توصیفی بنا۔ اردو میں بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٨٩٩ء میں "رویائے صادقہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - بات کے درمیان میں بولا جانے والا وہ جملہ جو کسی امر کی وضاحت یا تحسین کلام یا دعا وغیرہ کے لیے آتا ہے اگر یہ فقرہ درمیان سے نکال دیا جائے تب بھی کلام میں خلل نہیں پڑتا یعنی جملۂ معترضہ اصل بات سے خارج ہوتا ہے۔
 خیر جملہ تھا یہ تو معترضہ پھر اسی سمت آئے پھر کر      ( ١٩٢٠ء، روح ادب، جوش، ٤٣ )
٢ - [ مجازا ]  بات میں سے پیدا کی جانے والی بات، خارج از بحث ذکر۔
"شاعر بولا یہ تو جملۂ معترضہ تھا، تم نے بحث اشرف موجودات کی اٹھائی تھی اسے پہلے طے کر لو۔"      ( ١٩٤٠ء، مضامین رشید، ١١٨ )