ارتکاز

( اِرْتِکاز )
{ اِر + تِکاز }
( عربی )

تفصیلات


رکز  اِرْتِکاز

عربی زبان سے اسم مشتق ہے۔ ثلاثی مزید فیہ کے باب افتعال سے مصدر اور اردو میں بطور حاصل مصدر مستعمل ہے۔ ١٩١٧ء کو رسالہ تعمیر عمارت میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم حاصل مصدر ( مذکر - واحد )
جمع   : اِرْتِکازات [اِر + تِکا + زات]
جمع استثنائی   : اِرْتِکازوں [اِر + تِکا + زوں (و مجہول)]
١ - (طبیعت وغیرہ کا) کسی جانب رجحان، میلان، توجہ مرکوز یا مبذول ہونا۔
"تکان سے یہ زمانہ طویل ہو جاتا ہے، ارتِکاز توجہ اس کو مختصر کر دیتا ہے۔"      ( ١٩٣٧ء، اصول نفسیات، ١٠٦:١ )
٢ - (کسی چیز کا کسی جانب) جھکاؤ، اثر، دباؤ، مرکزیت۔
"انھیں کمزور نقاط پر باہر کی جانب مجموعی دباؤ کا ارتکاز ہوتا ہے۔"      ( ١٩١٧ء، رسالہ تعمیر عمارت، ١٩ )