صرافہ

( صَرّافہ )
{ صَر + را + فَہ }
( عربی )

تفصیلات


صرف  صَرّافہ

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ عربی سے من و عن اردو میں داخل ہوا اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٨٨٢ء کو "طلسم ہوشربا" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : صَرّافے [صَر + را + فے]
١ - صراف کا پیشہ یا کام، صرافی (فرہنگِ آصفیہ)۔
٢ - صرافوں کا بازار، وہ جگہ جہاں سونے چاندی اور زیورات کا کاروبار ہوتا ہے۔
"ایک طرف صرافہ، دوسری طرف بزازہ۔"      ( ١٨٨٢ء، طلسم ہو شربا، ٦٢:١ )
٣ - لین دین کی کوٹھی، بنک۔
"ایک جانب صرافہ، روپے پیسوں کا ڈھیڑ۔"      ( ١٨٩٦ء، لعل نامہ، ٣٠٤ )
٤ - سامانِ فروخت کے ذخیرے کی منڈی۔
"ایک پنی اور بڑھادی گئی تاکہ کوئلے کے صرافے کی تعمیر ہو سکے۔"      ( ١٩٣٧ء، اصول و طریق محصول، ١٩٤ )
٥ - ساہوکاری، پیسوں کے لین دین کا کاروبار، بنکنگ۔ (پلیٹس)۔
  • The place where bankers transact their business;  a bank;  money-market