صدقہ

( صَدْقَہ )
{ صَد + قَہ }
( عربی )

تفصیلات


صدق  صَدْقَہ

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ عربی سے من و عن اردو میں داخل ہوا اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٦٣٥ء کو "مینا ستونتی" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : صَدْقے [صَد + قے]
جمع   : صَدْقے [صَد + قے]
جمع استثنائی   : صَدْقات [صَد + قات]
جمع غیر ندائی   : صَدْقوں [صَد + قوں (و مجہول)]
١ - وہ چیز جو خدائے تعالٰی کے نام پر دی جائے، خیرات۔
"اب اس میں مالک جس طرح چاہے تصرف کرے، چاہے بیع کر دے یا ہبہ اور چاہے تو صدقہ کے طور پر دے دے۔"      ( ١٩٣٣ء، جنایات برجایداد، ٧ )
٢ - وہ کھانا وغیرہ جو کسی کے سر سے اتار کر چوراہے میں رکھتے ہیں، اُتارا، ردّ بلا کے لیے دیا جانے والا صدقہ۔
"ایک سائل دروازے پر آیا کرتا ہے اُس کی یہی صدا ہے "بچوں کا صدقہ دیں" ایمان کا صدقہ۔"      ( ١٩٠٦ء، الحقوق والفرائض )
٣ - اپنے اوپر خود عائد کیا ہوا کفارہ یا تاوان جو مدیون دائن کو وعدہ خلافی کی عذر خواہی میں اپنی خوشی سے دے۔
"اوس کا کچھ مہر جو رہ گیا تھا اوس کے پاس مع دس ہزار درہم صدقے کے بھیجا۔"      ( ١٨٦٦ء، تہذیب الایمان، ٣٦٩ )
٤ - طفیل، بدولت، بزرگانہ عطیہ یا برکت، عنایت۔
 انصاف سے جو پوچھو صدقہ حضور کا تھا کِسرٰی کی وہ عدالت، حاتم کا وہ مدار      ( ١٩١٨ء، سحر، بیاض سحر، ١٠٤ )
٥ - قربان، واری (عموماً امالے کے ساتھ مستعمل، صدقے۔
 ترا حسن وہ بتِ مہ جبیں کہ ہے صدقہ جس پر زماں زمیں جو دکھائے رخ تو ہو دن وہیں جو چھپائے منہ ابھی رات ہو      ( ١٨٥٤ء، ذوق، دیوان، ١٦٥ )
  • An alms;  a gift;  a sacrifice (to avert misfortune
  • or sickness)