سنسکرت سے ماخوذ اسم 'گنوار' کے ساتھ 'پن' بطور لاحقۂ کیفیت لگانے سے مرکب 'گنوارپن' بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٨٧٣ء کو "بنات النعش" میں مستعمل ملتا ہے
"بس یہی تو گنوار پن ہے کہ بھلے برے میں امتیاز نہیں۔"
( ١٨٧٣ء، بنات النعش، ١٦٨ )
٢ - نادانی، بے وقوفی۔
"ملا جیون تفسیر احمدی اور اصول قفہ میں نورالانوار کے مصنف تھے، مگر علمی فضلیت اور استادی سے بڑھ کر ان کی سادہ لوحی اور گنوارپن کے قصے گھر گھر مشہور ہیں۔"
( ١٩٥٣ء، تاریخ، مسلمانان پاکستان و بھارت، ٥٨٩:١ )
٣ - بدتہذیبی، ناشائستگی، اکھڑپن۔
"ایک خالص مہذب ہندوستانی لہجہ بھی دیا ہے جس میں گنوارپن کے بجائے شائستگی گھلاوٹ نرمی اور مٹھاس ہے۔"
( ١٩٨٣ء، نئی نتقید، ١٩٨ )