ڈبا

( ڈَبّا )
{ ڈَب + با }
( پراکرت )

تفصیلات


پراکرت زبان سے ماخوذ لفظ 'ڈب' کے آخر پر لاحقہ تکبیر 'ا' لگانے سے بنا۔ جو اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ تحریراً سب سے پہلے ١٦٩٧ء میں "دیوانِ ہاشمی" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : ڈَبّے [ڈَب + بے]
جمع   : ڈَبّے [ڈَب + بے]
جمع غیر ندائی   : ڈَبّوں [ڈَب + بوں (و مجہول)]
١ - ٹین یا لکڑی کا ظرف جو مختلف شکلوں اور جسامت کا ہوتا ہے اور جس میں مختلف چیزیں مثلاً تیل، دوا، کھانے کی چیزیں وغیرہ رکھی جاتی ہیں، صندوقچہ۔
"ہایا سو کے ہمیشہ اپنے ساتھ ایک ڈبا رکھتا تھا جس کی وہ بڑی احتیاط کرتا تھا۔"      ( ١٩٨٣ء، جاپانی لوک کتھائیں، ٣٥ )
٢ - لوہے اور لکڑی کا بنا ہوا ریل کا ڈبہ، درجہ، پہیوں کے اوپر کمرہ نما نِشت گاہ۔
"ایکسپریس تیار کھڑی ہے . تمام گاڑیاں تلاش کرنے کے بعد ایک چھوٹا سا ڈبہ سیکنڈ کلاس کا ایسا نظر آیا ہے جس میں صرف ایک صاحب تشریف فرما ہیں۔"      ( ١٩٣٩ء، شمع، ١٧ )
٣ - چھوٹے پرندوں میں سے ایک پرند۔
"بعض تمام دن خشک میدانوں اور کھیتوں میں چرتے چُگتے رہتے ہیں رات کو درختوں پر بسیرا کرلیتے ہیں مثلاً کبوتر، فاختہ اور بعض چڑیاں اور تیتر کالا و ڈبا۔"      ( ١٨٩٧ء، سیرِ پرِند، ٥٠ )
٤ - [ طب ]  پسلی کا عارضہ جو اکثر بچوں کو ہوتا ہے۔
"ڈبا بچوں کی بیماری۔"      ( ١٩٧٣ء، اردو نامہ، کراچی، ٦٦:٢٤ )
٥ - سپاہی کا وہ تھیلا جس میں وہ کارتوس اور دوسرا سامان رکھتا ہے۔
 رپا سونا سیم و زر ہے ڈبا کو پا ڈھال سپر ہے      ( ١٧٩٣ء، ذوق الصبیان (مقالاتِ شیرانی، ١٢٦:٢) )
٦ - زیورات کا صندوقچہ، بٹّا، خوشبو رکھنے کا چھوٹا بکس، عطر دان۔ (پلیٹس)
٧ - کُپّا، چمڑے کی چھا گل جو پانی یا تیل کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔
" "ڈبا" چمڑے کا کُپّا تیل وغیرہ رکھنے کے لیے۔"      ( ١٩٧٣ء، اُردو نامہ، کراچی، ٦٦:٤٤ )