سنسکرت سے ماخوذ اسم 'گول' کے ساتھ 'مٹول' بطور تابع مہمل لگانے سے مرکب 'گول مٹول' بنا۔ اردو میں بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ ١٩٤٧ء کو "قیامت ہم رکاب آئے نہ آئے" میں مستعمل ملتا ہے۔
"میں پہلے بھی کئی بار بابا کو بڑ کے درخت کے نیچے آلتی پالتی مار کر بیٹھے اور گول مٹول باوا قسم کے لوگوں سے باتیں کرتے ہوئے دیکھ چکا تھا۔"
( ١٩٨٩ء، سمندر اگر میرے اندر گرے، ٨٠ )
٢ - الجھا ہوا، پیچیدہ۔
"ان میں سب شاعروں کے روپے ایک دوسرے سے مماثل اور گول مٹول قسم کے ہیں۔"
( ١٩٨٣ء، مذاکرات، ١٠١ )
'A round jar'; fat and stupid; a fat and stupid person.