صفت  ذاتی (  مذکر - واحد  ) 
              
                
                  
                    ١ - کچھ کچا کچھ پکا، ادھ پکا، ادھ کچرا، ناقص۔
                  
                  
                      
                      
                        "پہلی پارٹی کو تو اچھا کھانا ملا، دوسری کو کچا پکا۔"     
                        ( ١٩٨٢ء، خشک چشمے کے کنارے، ١٨٤ )
                      
                   
                 
                
                  
                    ٢ - ادھورا، نامکمل۔
                  
                  
                      
                      
                        "ہندوستان کے طالب علم جو کچھ کالجوں سے حاصل کرتے ہیں اس کی ترقی کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔"     
                        ( ١٨٩٨ء، مضامین سرسید، ٦٣ )
                      
                   
                 
                
                  
                    ٣ - جو پختہ نہ ہو، گزارے لائق۔
                  
                  
                      
                      
                        "خدا کی عنایت سے چند روز میں خط بھی کچا پکا لکھنے لگی۔"     
                        ( ١٨٦٤ء، نصیحت کا کرن پھول، ٨٠ )
                      
                   
                 
                
                  
                    ٤ - غیر معتبر، غیر یقینی (پکا کی ضد)
                  
                  
                      
                      
                        "وعدہ کچا پکا ہرگز نہ ہو گا۔"     
                        ( ١٩٨٩ء، نیاخون، ١٢٩ )
                      
                   
                 
                
                  
                    ٥ - صحیح صحیح مال، کل کیفیت۔
                  
                  
                      
                      
                        "جو کچھ پایا تھا سب الٹا سیدھا، کچا پکا اگل دیا۔"     
                        ( ١٩٤٥ء، حکیم الامت، ٢٧ )
                      
                   
                 
                
                  
                    ٦ - ناتجربہ کار، جسے دستگاہ نہ ہو۔
                  
                  
                      
                      
                         جلتی ہے چوسر خوشی کی غم کے آنچ کچے پکے کھیلتے ہیں تین پانچ     
                        ( ١٨٣٩ء، مثنوی خزانیہ، ٨ )