کچا پکا

( کَچّا پَکّا )
{ کَچ + چا + پَک + کا }

تفصیلات


سنسکرت زبان سے ماخوذ اسم 'کچا' کے بعد ہندی زبان سے ماخوذ اسم پکا لگانے سے مرکب بنا۔ اردو میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٨٠٣ء کو "اخلاق ہندی" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
١ - کچھ کچا کچھ پکا، ادھ پکا، ادھ کچرا، ناقص۔
"پہلی پارٹی کو تو اچھا کھانا ملا، دوسری کو کچا پکا۔"      ( ١٩٨٢ء، خشک چشمے کے کنارے، ١٨٤ )
٢ - ادھورا، نامکمل۔
"ہندوستان کے طالب علم جو کچھ کالجوں سے حاصل کرتے ہیں اس کی ترقی کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔"      ( ١٨٩٨ء، مضامین سرسید، ٦٣ )
٣ - جو پختہ نہ ہو، گزارے لائق۔
"خدا کی عنایت سے چند روز میں خط بھی کچا پکا لکھنے لگی۔"      ( ١٨٦٤ء، نصیحت کا کرن پھول، ٨٠ )
٤ - غیر معتبر، غیر یقینی (پکا کی ضد)
"وعدہ کچا پکا ہرگز نہ ہو گا۔"      ( ١٩٨٩ء، نیاخون، ١٢٩ )
٥ - صحیح صحیح مال، کل کیفیت۔
"جو کچھ پایا تھا سب الٹا سیدھا، کچا پکا اگل دیا۔"      ( ١٩٤٥ء، حکیم الامت، ٢٧ )
٦ - ناتجربہ کار، جسے دستگاہ نہ ہو۔
 جلتی ہے چوسر خوشی کی غم کے آنچ کچے پکے کھیلتے ہیں تین پانچ      ( ١٨٣٩ء، مثنوی خزانیہ، ٨ )
  • Half-cooked or baked
  • partly dressed;  half-ripe;  build partly of baked bricks and partly of mud;  doubtful