کالا منہ

( کالا مُنْہ )
{ کا + لا + مُنْہ (نون غنہ) }

تفصیلات


سنسکرت زبان سے ماخوذ اسم 'کالا' کے بعد ہندی اسم 'منہ' لگانے سے مرکب بنا۔ اردو میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور کلمہ تحقیر اور اسم استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٨٥١ء کو "کلیاتِ مومن" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - (برہمی کے موقع پر مستعمل، کو سنے یا بددعا کے طور پر) خدا تجھے رسوا اور روسیا کرے، بدنام ہو، رسوا ہو۔
 کالا منہ نوج ہو ایسا کسی بندی کو نصیب داڑھی منڈموا لگتا ہے بھجنگا کیسا      ( ١٩٢١ء، دیوان ریختی، ١٨ )
٢ - جا دُور ہو، دفعان ہو۔
 چل پرے ہٹ مجھے نہ دکھلا منہ اے شب ہجر تیرا کالا مُنہ    ( ١٨٥١ء، کلیات مومن، ١٣٠ )
٣ - دور، ایسی تیسی۔
 نکالو گھر سے ایسی چوٹٹی ماما کا کالا منہ نہ چکلے پر رہے بیلن نہ چولہے پر توا ٹھہرے    ( ١٨٨٩ء، دیوانِ عنایت وسفلی، ٨٣ )
٤ - اس شخص کا چہرہ جو جرم و خطا میں ملوث ہو۔
"جو شخص جھوٹ بنائے گا قیامت کےدن اس کا کالا منہ ہو گا۔"      ( ١٨٩٤ء، مجموعہ نظم بے نظیر، ٥٦ )