کالا چور

( کالا چور )
{ کا + لا + چور (و مجہول) }

تفصیلات


سنسکرت زبان سے ماخوذ اسم 'کالا' کے بعد 'ہندی' اسم 'چور' ملنے سے مرکب بنا۔ اردو میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٧٧٥ء کو "مثنوی ہجو حویلی" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - عیار اور چالاک چور، بڑا چور۔
 طرّار بڑھ کر کون ہے اس کالے چور سے مشکل ہے پھر سراغ اگر دل چرائے زلف      ( ١٨٧٠ء، الماس درخشاں، ١١٠ )
٢ - [ مجازا ]  نامعلوم شخص (جس کا نام بتانا مقصود نہ ہو اور جہاں مخاطب سے یہ کہنا ہو کہ تمہیں کیا غرض کوئی بھی ہو)۔
"یہ رقم مجھے آپ دیں خواہ کالا چور دے میرے سامنے رقم آنی چاہیے۔"      ( ١٩٢٢ء، گوشۂ عافیت، ١٧٩:١ )
٣ - کالا دھندا کرنے والا۔
"ایسی صورتیں اختیار کی جائیں کہ معاشرے سے کالے چور اور ذخیرہ اندوز ختم ہو جائیں۔"      ( ١٩٨٥ء، روشنی، ٩٨ )
  • A great thief;  an unknown person;  a dark horse