انگریزی زبان سے اسم ہے جو اردو میں اپنے اصل معنی کے ساتھ عربی رسم الخط میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ تحریراً سب سے پہلے ١٨٩٢ء میں "لیکچروں کا مجموعہ" میں مستعمل ملتا ہے۔
جمع غیر ندائی : ڈَلِیوَرِیوں [ڈَلی (فتحہ مجہول ڈ) + وَریوں (و مجہول)]
١ - تقسیم، کسی چیز کی ترسیل۔
"گاہک کو فقط ہیروئن کا نام تجویز کر دینا چاہیے باقی سارا کام ہمارے ذمے ہے مال کی گھر پر ڈلوری کا انتظام ہے۔"
( ١٩٧٨ء، ابنِ انشا، خمارِ گندم، ٥٠ )
٢ - ڈاک کی تقسیم
"ڈاک کی پہلی ڈلوری چار بجے ہوئی ہے۔"
( ١٩٦٨ء، مہذب اللغات، ٣٦١:٥ )
٣ - خیالات کو مؤثر انداز میں دوسروں تک پہنچانا، اندازِ بیان۔
"وہ جادو جس نے حاضرین کو ڈلوری کے وقت تڑپا دیا تھا مطالعہ کے وقت ناظرین کو مسحور نہ کردے۔"
( ١٩٠٠ء، مضامینِ سلیم، ١٤١:٣ )
٤ - زچگی
"وہ شخص اسپتال کی ڈلیوری روم کے برآمدے میں بے چینی سے ٹہل رہا تھا اور بار بار آتی جاتی نرسوں سے پوچھ رہا تھا کیا ہوا۔"
( ١٩٨٨ء، اخبارِ جہاں، کراچی، ٢١ تا ٢٧ مارچ )
٥ - [ طباعت ] تیار ہونے کا عمل، تکمیل۔
"چھپے ہوئے ڈبوں کی مانگ میں اضافہ ہو گیا ہے اس لیے ایسی تیز رفتار مشینیں استعمال ہوتی ہیں جن پر ہینڈلنگ سے لے کر ڈلیوری تک خشک کی ہوئی تیار پلیٹیں . نکلتی رہتی ہیں۔"
( ١٩٧٨ء، آفسٹ لیھتو گرافی، ١٧ )