ڈولنا

( ڈولْنا )
{ ڈول (و مجہول) + نا }
( پراکرت )

تفصیلات


پراکرت زبان سے ماخوذ ہے۔ اردو میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور فعل استعمال ہوتا ہے۔ تحریراً سب سے پہلے ١٣٢٤ء کو "امیر خسرو (مقالات شیرانی)" میں مستعمل ملتا ہے۔

فعل لازم
١ - اپنی جگہ سے حرکت کرنا، جُنبش کرنا، ہلنا۔
"پہاڑ ہلے اور ڈول گئے۔"      ( ١٩٣٤ء، خیال (نصیر حسین)، داستانِ عجم، ١٤١ )
٢ - گھومنا، چکر کاٹنا۔
 ہلکی ہلکی لہریں نیلم پانی میں دھیرے دھیرے ڈولے یا قوتی نبّا      ( ١٩٧٧ء، خوشبو، ١٧١ )
٣ - مارا مارا پھرنا، آوارہ پھرنا۔
 اِسی عذاب میں بھلوک در بدر ڈولا کمر پہ دودھیا بھٹوں کا ڈالکر جہولا (جھولا)      ( ١٩٢١ء، پتنی پرتاب، ٩١ )
٤ - ٹہلنا، پھیرا لگانا، جائزہ لینا، گشت کرنا۔
"رات دن ہمارے گاؤں میں ترک سوار ڈولا کرے ہیں۔"      ( ١٨٦٨ء، رسوم ہند، ١٦٤ )
٥ - سمت بدلنا، گھومنا پھرنا، منڈلانا۔
"کالے کہیں جھکی جھکی ساون کی گھٹائیں . پُون سی ڈولتی پھرتی اِدھر اُدھر۔"      ( ١٩٤٧ء، دو نیم، ١٧١ )
٦ - اِدھر اُدھر بھٹکتا پھرنا، درپے ہونا، لہرانا، جُھومنا۔
"شیرانی کی بیوی کٹی پتنگ کی طرح ڈولتی اپنے کوٹھے میں چلی گئی۔"      ( ١٩٨٦ء، جوالا مُکھ، ٦٨ )
٧ - پس و پیش میں ہونا، متزلزل ہونا، اگر مگر کرنا۔
 ابھی سے تم ڈولنے لگے ہو ابھی سے سکھ کے مقابلے میں صعُوبتیں تولنے لگے ہو      ( ١٩٨٦ء، بے آواز گلی کوچوں میں، ٤٨ )
٨ - لڑ کھڑا کر چلنا، ڈگمگانا۔
 گرتے ہوئے سنبھلتے ہوئے ڈولتے ہوئے آئے فضائے شوق میں راس گھولتے ہوئے      ( ١٩٨١ء، بادسبک دست، ١٨٧ )
٩ - مٹرگشت کرنا، سیرو تفریح کرنا۔
 ہری بھری وادی میں ڈولے جیسے ماں کے دوارے اس کا سینہ صاف سجیلا مندری کا سا نگینہ      ( ١٩٨٥ء، درپن درپن، ١٧١ )
١٠ - (جھولے پالنے میں) جھولنا، آنگن میں چلنا پھرنا۔
 اصغر پیارے ماں سے بول سکھے ہونٹ اپنے ٹک کھول گھر کے آنگن میں اب ڈول خالی تیرا پالنا      ( کرم علی (سہ ماہی) تحریر، دہلی، ١، ١٤:١ )
١١ - ارادے میں لغزش پیدا ہونا۔
"کیسا کیسا رشی ناری کو دیکھ کر ڈول گیا۔"      ( ١٩٨٥ء، خیمے سے دور، ٦٧ )
١٢ - بچوں کی مانند رک رک کر چلنا، آگے پیچھے پھرنا۔
 چاہت کے مارے بطخے کی مانند ڈولنا پر اپنے پھڑ پھڑاتا وہیں پیچھے ہو لیا      ( ١٩٨٤ء، قہر عشق، ٢٦٥ )