ڈولی

( ڈولی )
{ ڈو (و مجہول) + لی }
( پراکرت )

تفصیلات


پراکرت زبان سے ماخوذ اسم 'ڈول' کے آخر پر 'ی' بطور لاحقہ تانیث لگانے سے بنا۔ اردو میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور اسم استعمال ہوتا ہے سب سے پہلے ١٥٩٣ء کو "آئین اکبری" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
جمع   : ڈولِیاں [ڈو (مجہول) + لِیاں]
جمع غیر ندائی   : ڈولِیوں [ڈو (و مجہول) +لِیوں]
١ - بانس کے موٹے ڈنڈوں کے سہارے لٹکی کھٹولی جس کو دو کہار کندھوں پر اٹھاتے ہیں، ایک زنانہ سواری۔
"نقاب پوش بیوی کی ڈولی کا پردہ اٹھا کر اس کے اندر سمٹ گئی۔"      ( ١٩٨٧ء، گردش رنگِ چمن، ١٦٤ )
٢ - چارپائی کی قسم کی ایک چیز جس میں بیمار کو لٹا کر ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتے ہیں، اسٹریچر۔
"نپولین کی طرف سے ایک گولہ ایسا نشانے پر پڑا کہ مورو کے گھوڑے کو مار کر مورو کی دونوں ٹانگوں کو بے کار کر دیا . اسی حال میں وہ ڈولی میں ڈالا گیا اور میدان جنگ سے کچھ فاصلے پر ایک جھونپڑی میں پہنچا دیا گیا۔"      ( ١٩٠٧ء، نپولین اعظم (ترجمہ)، ٢٣٧:٤ )
٣ - جہاز کا مستول۔ (ماخوذ: علمی اردو لغت)
٤ - [ عور ]  مسافت بتانے کے لیے ڈولی کے کرایہ سے اندازہ لگاتی تھیں۔
"کوئی دو آنے ڈولی میاں کلو کی سسرال تھی۔"      ( ١٩٤٢ء، دلی کی چند عجیب ہستیاں، ١٧١ )
٥ - [ مجازا ]  جنازہ، تابوت۔
 چشم عبرت سے دیکھ پردہ نشیں شکل تابوت کی ہے ڈولی میں      ( ١٨٧٨ء، سخن بیمثال، ٥٧ )