عذرا

( عَذْرا )
{ عَذ + را }
( عربی )

تفصیلات


عذر  عَذْرا

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں بطور اسم مستعمل ہے اور سب سے پہلے ١٥٦٤ء کو "دیوان حسن شوقی" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
١ - دوشیزہ، کنواری لڑکی۔
"بدوؤں میں صرف بھائی یا ابن مم ہی کو کسی عذرا (کنواری) کا سیر عام جوسہ لینے کا حق تھا۔"      ( ١٩٦٠ء، عزل الغزلات، ١٤٥ )
٢ - وامق کی محبوبہ۔
 مانا کہ دل افروز ہے افسانہُ عذرا مانا کہ دل آویز ہے سلٰمی کی کہانی      ( ١٩٢٩ء، بہارستان، ٢٥٢ )
٣ - حضرت مریم کا لقب۔
"مریم عذرا کی خانقاہ کی تمام ننوں میں وہی نوجوان اور خوشرو تھی۔"      ( ١٨٨٧ء، مقدس نازنین، ١٤٨ )
٤ - لقب حضرت زہرابنتِ رسولۖ اللہ۔
 خوب دولت تھی بتولؓ عذرا کے گھر میں آج دَرّانہ دھنسو شیرِ خدا کے گھر میں      ( ١٨٧٤ء، انیس، مراثی، ٢٤٨:٥ )
اسم معرفہ ( مذکر - واحد )
١ - [ نجوم ]  برج سنبلہ، برج سنبلہ کا نام۔
"سنبلہ جس کو عذرا بھی کہتے ہیں . اس کی شکل بھی عورت کی ہے جو خوشۂ گندم ہاتھ میں لیے ہوئے ہے۔"      ( ١٨٩٥ء، مقالات سرسید، ١١٤:٦ )
  • کَنواری
  • کِنّیا
  • کَماری