عسرت زدہ

( عُسْرَت زَدَہ )
{ عُس + رَت + زَدَہ }

تفصیلات


عربی زبان سے مشتق اسم 'عسرت' کے ساتھ فارسی مصدر 'زدن' سے صیغہ ماضی مطلق واحد غائب 'زد' کے آخر پر 'ہ' بطور لاحقۂ حالیہ تمام لگانے سے 'زدہ' ملا کر مرکب بنا۔ اردو میں بطور صفت مستعمل ہے اور سب سے پہلے ١٩٥٨ء کو "ہمیں چراغ ہمیں پروانے" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی
١ - افلاس کا مارا، تنگ دست، مفلس۔
"اس نے ہندوستان کے عسرت زدہ کسانوں کو اور بھی مفلس کر دیا۔"      ( ١٩٨٧ء، کچھ نئے اور پرانے چراغ، ١٧ )