استبداد

( اِسْتِبْداد )
{ اِس + تِب + داد }
( عربی )

تفصیلات


بدد  اِسْتِبْداد

عربی زبان سے اس مشتق ہے۔ ثلاثی مزید فیہ کے باب استفعال سے مصدر ہے اردو میں بطور حاصل مصدر مستعمل ہے۔ اردو میں ١٩١٨ء کو "لیکچروں کا مجموعہ" کے طبع ثانی کے دیباچے میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم مجرد ( مذکر )
١ - (لفظاً) اپنے آپ کو سب پر ترجیح دینے کا عمل یا رجحان، غلبہ، ہٹ دھرمی، (مراداً) شخصی حکومت، غیر جمہوری بالادستی۔
 دیو استبداد جمہوری قبا میں پاے کوب تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری      ( ١٩٢٤ء، بانگ درا، ٢٩٦ )
٢ - ظلم، تعدی
"١٧٩٢ء میں . فرانس کی قوم نے اپنے دورہ ظلم و استبداد کے معائب و مفاسد کا احساس کیا۔"
٣ - اسرار، تاکید، دباؤ، زبردستی۔
"انجمن حمایت اسلام کے سیکرٹری خود ہر سال دہلی آکر خواہ وہ کسی حال میں ہوں منت سماجت، اصرار و استبداد سے ان کو لے جاتے۔"      ( ١٩١٨ء، لیکچروں کا مجموعہ (دیباچہ طبع ثانی)، نذیر، ١٢:١ )
  • absolute dominion
  • despotism;  insisting upon a thing being done