انگریزی سے اسم جامد spring سے ماخوذ ہے۔ اردو میں انگریزوں کی برصغیر آمد کے ساتھ عام بول چال کی زبان میں استعمال ہوا۔ تحریری صورت میں ١٩٣٢ء "تفنگ با فرہنگ" میں مستعمل ملتا ہے۔
جمع غیر ندائی : اِسْپِرِنْگوں [اِس + پِرِن + گوں (و مجہول)]
١ - کچکیلا کنڈلی کی شکل کا پرزا جو لوہے وغیرہ کے تار یا سلاخ کو بل دے کر بنایا جائے، جو دباؤ سے دب جائے اور کھلنے کے لیے زور کرے، کمانی جیسی کہ گھڑی، گاڑی اور گدوں وغیرہ میں لگی ہوتی ہے۔
"اس حالت میں اعصاب کی لچک اسپرنگ کا کام دیتی ہے۔"
( ١٩٣٢ء، افسرالملک، تفنگ با فرہنگ، ٢٢٥ )