لاابالی

( لااُبالی )
{ لا + اُبا + لی }
( عربی )

تفصیلات


عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق صیغہ واحد متکلم 'ابالی' کے ساتھ حرف نفی 'لا' بطور سابقہ لگنے سے مرکب 'لاابالی' بنا۔ عربی میں صیغہ نفی واحد متکلم ہے اردو میں عربی سے ماخوذ ہے اور بطور صفت اور گا ہے بطور اسم مستعمل ملتا ہے ١٥٦٤ء کو "دیوان حسن شوقی" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مذکر، مؤنث - واحد )
جمع غیر ندائی   : لااُبالِیوں [لا + اُبا + لِیوں (و مجہول)]
١ - [ تصوف ]  وہ شخص جو کسی شے سے خوف نہ رکھے، جو کچھ سلوک میں اس کو پیش اوے وہ کہے اور کرے۔ (مصباح التعرف)۔
٢ - [ مؤنث ]  معمولی کام، بے فکری، بے پروائی، بیباکی، شوخی۔
"وہ اپنی آمدنی اور بیوی بچوں کا خیال کیے بغیر اپنی لاابالیوں میں روپیہ پیسا اڑاتے رہتے ہیں۔"      ( ١٩٩١ء، اردو نامہ، لاہور، نومبر، ٢٤ )
صفت ذاتی ( واحد )
١ - بےپروا، بے فکر، غافل نیز نڈو، بیباک۔
"وہ نہایت لاابالی اور غیر ذمہ دار تھا بات کرنے میں بھی بیباک تھا۔"    ( ١٩٩٣ء، قومی زبان، کراچی، جون، ٦٥ )
٢ - آزاد منش، رند مشرب۔
"لاابالی اور سنکی جیسے جب تھے، اب بھی ہیں۔"    ( ١٩٩٠ء، آب گم، ٢٦٩ )
٣ - شوخ، گستاخ، بے شرم، بے لحاظ۔
"رنگین لاابالی بے پرواہ شکل و صورت دیکھتے تو صرف دوپٹے کی کسر تھی۔"    ( ١٩٨٤ء، اوکھے لوگ، ٥٣ )
٤ - [ مجازا ]  بے نیاز، خدائے تعالٰی۔
"حضرت یوسف علیہ السلام اور بھی روئے کہ ان کی آواز سے فرشتوں پر ایک حالت مصیبت پیدا ہوئی تو درگاہ لا ابالی میں ملتمس ہوئے کہ یاالٰہی یہ آواز چھوٹے لڑکے کی ہے۔"      ( ١٨٤٥ء، احوال الانبیا، ٣١٥:١ )
٥ - [ مجازا ]  معمولی، سرسری، بے مقصد۔
 مجازی صورتوں پر ہے بحالی حقایق ہو چکے ہیں لا ابالی      ( ١٩٣٣ء، سیف و سبو، ٢٦٢ )
  • Fearlessness
  • carelessness;  thoughtlessness
  • indifference