گھونگا

( گھونْگا )
{ گھوں (و مجہول) + گا }
( سنسکرت )

تفصیلات


اصلاً سنسکرت زبان کا لفظ ہے۔ اردو میں سنسکرت سے ماخوذ ہے۔ اصل معنی اور اصل حالت میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٨٧٦ء کو "علم حساب" میں مسعتمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : گھونْگے [گھوں (و مجہول) + گے]
جمع   : گھونْگے [گھوں (و مجہول) +گے]
جمع غیر ندائی   : گھونْگھوں [گھوں (و مجہول) + گوں (و مجہول)]
١ - ایک دریائی یا سمندری کیڑا جو چکر کی صورت میں سیپی یا گھونگھے کے خول میں لپٹا رہتا ہے، خول خشک ہو جاتا ہے اور اس کو پھونک کر چونا بناتے ہیں۔
"مچھلی کے چھوٹے بچوں کی خوراک چھوٹے چھوٹے خرد بینی جانور اور پودے ہوتے ہیں لیکن بڑی ہونے پر مچھلی گلنے سڑنے والے نباتاتی مادے، کیڑے مکوڑے، گھونگے وغیرہ کھاتی ہے۔"      ( ١٩٧٠ء، گھریلو انسائیکلوپیڈیا، ٦٤٥ )
٢ - دریائی یا سمندری کیڑے کا خول جو ہڈی کی مانند اور گبند نما پیچ دار ایک جانب سے کھلا اور دوسری جانب سے بند ہوتا ہے، سیپی، منکھ (Cochlea He lix)۔
"ان چٹانوں میں گھونگوں، ہڈیوں، مونگوں اور سمندری گھاس اور کائی کی بہت کثرت ہوتی ہے۔"      ( ١٩٦٤ء، رفیق طبعی جغرافیہ، ١٩٢ )
٣ - کان کا بیرونی سیب نما نرم ہڈی کا بنا ہوا حصہ۔
"اسی طرح کان کے گھونگے میں بھی گول فوری قاتل ہوتی ہے۔"      ( ١٩٠٤ء، ہندوستانی کے بڑے شکار، ٤٢ )
٤ - بے وقوف، احمق، بدھو۔
"توبہ، عجب گھونگے ہو، جو بات آدمی کی سمجھ میں نہ آئے اس کا کہنا کیا ضرور ہے۔"      ( ١٩٣٤ء، تین پیسے کی چھوکری، ٧١ )
  • A cockle;  cockle-shell;  a snail;  snail shell;  any spiral univalve shell