گھٹنا

( گَھٹْنا )
{ گَھٹ + نا }
( پراکرت )

تفصیلات


اصلاً پراکرت زبان کا لفظ ہے۔ اردو میں پراکرت سے ماخوذ ہے اصل معنی اور اصل حالت میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور فعل استعمال ہوتا ہے۔ ١٦٠٩ء کو "قطب مشتری" میں مستعمل ملتا ہے۔

فعل لازم
١ - تھوڑا ہونا، کم ہونا۔
 راجہ کیوں کر اس کو روکے اور پر جا کیا کرے بڑھ گئی جس شے کی جو قیمت وہ گھٹتی ہی نہیں      ( ١٩٨٢ء، ط ظ، ٧٦ )
٢ - تنزل ہونا، زوال ہونا، رتبہ کم ہونا۔
"اس طرح برہما دیوتا پر دو رخی مار پڑتی رہی اور اس کا مرتبہ گھٹتا چلا گیا۔"      ( ١٩٩٠ء، بھولی بسری کہانیاں، ٨٧:٢ )
٣ - بھاؤ کم ہونا، مندا ہونا، نرخ کم ہونا۔ (فرہنگ آصفیہ، نوراللغات)
٤ - چھوٹا ہونا، کوتاہ ہونا، گر جانا، پست ہو جانا۔
 جہل فرد نے دن یہ دکھائے گھٹ گئے انساں بڑھ گئے سائے    ( ١٩٥٤ء، آتش گل، ١٧٤ )
٥ - طول میں کم ہونا، لمبائی کوتاہ ہونا۔
 گھٹی نخل حیا کی جس گھڑی شاخ بڑھا خود بے تامل دست گستاخ    ( ١٨٦١ء، الف لیلہ نو منظوم، ٣٩٥:٢ )
٦ - لاغر ہونا، دبلا ہونا، حجم میں کم ہونا۔
 گھٹ کر کبھی ہوں قطرہ بڑھ کر کبھی ہوں دریا آج ابتدا کا جلوہ کل شان انتہا ہوں      ( ١٩٣٣ء، فکر و نشاط، ٣٨ )
٧ - زیر ہونا، دبنا، ہارنا۔
"جس وقت لڑوائے تو اپنے مرغ کے دونوں کان میں اللہ الصمد باوضو ہو کر ایک ایک بار پڑھ کر پھونک دے انشاء اللہ تعالٰی کبھی مرغ نہ گھٹے گا۔"      ( ١٨٨٣ء، صیدگاہ شوکتی، ١٩٩ )
  • To lessen
  • diminish
  • decrease
  • waste
  • dwindle
  • shrink
  • contract;  to abate
  • decline