عصائے موسی

( عَصائے مُوسٰی )
{ عَصا + اے + مُو + سا }
( عربی )

تفصیلات


عربی زبان سے مشتق اسم 'عصا' کے بعد 'ے' بطور علامت اضافت لگانے کے بعد عربی ہی سے اسم 'موسٰی' لگا کر مرکب 'عصائے پیری' بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے اور سب سے پہلے ١٧٠٧ء کو "کلیاتِ ولی" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم معرفہ ( مذکر - واحد )
١ - حضرت موسٰی کے ہاتھ کی لکڑی جس میں یہ معجزہ تھا کہ فرعون کے ساحروں کے مقابلے میں سانپ یا اژدہا بن گئی تھی۔
"طوفانِ نوح، آتشِ خلیل، عصائے موسٰیؑ، نفس عیسٰیؑ اور اس قسم کے اور بھی بہت سے کیفیات و حالات کا ذکر قرآن مجید میں بار بار آیا ہے۔"    ( ١٩٣٢ء، سیرۃ النبیۖ، ٦:٣ )
٢ - [ مجازا ] طاقت ور اور موثر ہتھیار۔
"رومانیت کے سکون بخش ہتیھار کو انسان کا عصائے موسٰی باور کرایا جاتا ہے۔"    ( ١٩٨٧ء، حصار، ١٢ )