دوڑنا

( دَوڑْنا )
{ دَوڑ (و لین) + نا }
( پراکرت )

تفصیلات


دَوڑ  دَوڑْنا

پراکرت زبان سے اردو میں ماخوذ اسم 'دوڑ' کے ساتھ 'نا' بطور علامت مصدر لگا کر مصدر 'دوڑنا' بنایا گیا ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٥٩١ء کو جانم کی "وصیت الہادی" میں مستعمل ملتا ہے۔

فعل لازم
١ - بھاگنا، لپکنا، تیزی سے چلنا، سرپٹ چلنا۔
"الیکشن کی مصروفیت کے سلسلے میں دوڑنا پڑا۔"      ( ١٩٥٢ء، زیرلب، ٢٣١ )
٢ - جاری ہونا، بہنا۔
 منج نین جیوں گنگا جمنا پھر پاٹ دونوں دوڑتے کس دھر کہوں یو حال میں جس دھر کہوں نہیں فائدہ      ( ١٦٧٨ء، غواصی، کلیات، ١٣٢ )
٣ - [ تصوف ] خیال خدا میں غرق ہونا، اللہ تعالٰی سے لو لگی ہونا، ذکر خدا میں گہرے استغراق میں ہونا۔
"باری کا آسان دوڑتا ہے۔"    ( ١٥٩١ء، جانم رسالۂ وجودیہ، ٤ )
٤ - پھیلنا، سرایت کر جانا، بچھنا۔
 لو ڈوب گیا پھر بادل میں، بادل میں وہ خط سے دوڑ گئے لو پھر وہ گھٹائیں چاک ہوئیں، ظلمت کا قدم تھرانے لگا    ( ١٩٣٣ء، سیف و سبو، ٩٠ )
٥ - اثر انداز ہونا۔
"کس طرح ایک ادب کا اثر دوسرے ادب پر دوڑتا گیا ہے۔"      ( ١٩٢٨ء، سلیم (وحیدالدین پانی پتی)، افاداتِ سلیم، ٢٤٠ )
٦ - ترقی کرنا، آگے بڑھنا، مسابقت کرنا۔
 گائے اور بچھڑے کو ان میں دوڑ لینے دو ذرا مورچہ کی طرح رہ جائے گا ہو کر پائیمال      ( ١٩٨٢ء، ط ظ، ٣٨ )
٧ - حملہ آور ہونا۔
 اس سے بچتے تھے قافلے نہ ہزار لاکھ پر دوڑتا تھا ایک سوار      ( ١٨٣٣ء، مظہرالعجائب، ١٨٣ )