دو ٹوک

( دو ٹُوک )
{ دو (و مجہول) + ٹُوک (و مجہول) }

تفصیلات


فارسی زبان سے اسم جامد 'دو' کے ساتھ سنسکرت سے ماخوذ مصدر 'ٹوکنا' سے حاصل مصدر 'ٹوک' لگایا گیا ہے۔ اردو میں ١٦٠٩ء کو "قطب مشتری" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی
١ - دو ٹکڑے دو پارہ۔
 جو آیا نزدیک اژدھا چوک کر سٹیا دو طرف اس کوں دو ٹوک کر      ( ١٦٠٩ء، قطب مشتری، ١٦ )
٢ - طے شدہ، قطعی، فیصلہ کن، حتمی۔
"تحلیل نفسی نے اس ضمن میں دو ٹوک دعویٰ نہیں کیا۔"    ( ١٩٨٣ء، تخلیق اور لاشعوری محرکات، ٦٦ )
٣ - کھرا، سچا، بے لاگ، صاف صاف۔
"یہ تیکھا اور دو ٹوک قسم کا لہجہ یگانہ سے ملتا جلتا ہے۔"    ( ١٩٤٤ء، نیم رخ، ٧٨ )
٤ - موزوں، مناسب، صحیح۔
"ان کے بارے میں کوئی دو ٹوک فیصلہ کرنا آسان کام نہیں ہے۔"      ( ١٩٨٢ء، آتش چنار، ٢٥٠ )
  • two-pieced;  clear
  • plain
  • clean