دوش[1]

( دوش[1] )
{ دوش (و مجہول) }
( سنسکرت )

تفصیلات


سنسکرت زبان سے اسم جامد ہے۔ اردو میں اصل معنی کے ساتھ عربی رسم الخط میں مستعمل ہوا۔ اردو میں سب سے پہلے ١٧٩٨ء کو سوز کے دیوان میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم مجرد ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : دوشوں [دو (و مجہول) + شوں (و مجہول)]
١ - غلطی، قصور، خطا، الزام، تہمت۔
 موت نے آ کر ڈھانپے سب کے روگ اور دکھ اور دوش ایک جنم کا مارا وہ جو مر کے مٹ نہیں پائے      ( ١٩٨١ء، حرف دل رس، ٧٢ )
٢ - گناہ، پاپ۔
"اگر کوئی برہمن کسی شودر کو جان سے مار ڈالے تو اس پر کوئی دوش نہ ہو گا۔"      ( ١٩٧٣ء، رام راج، ٤٠ )
٣ - جرم، خلاف ورزیء قانون۔
"اس میں بیچارے پولیس والوں کا کیا دوش۔"      ( ١٩٧٦ء، مرحبا الحاج، ٤٦ )
٤ - [ فلسفہ ]  نفرت
"خاندان شکل و صورت، عظمت . سے متعلق حرص . لالچ (راگ) نفرت (دوش) تکبر (مد) کو اپنے دشمنوں کی طرح سمجھو۔"      ( ١٩٤٥ء، تاریخ ہند فلسفہ (ترجمہ)، ٢١٦:١ )
٥ - نقصان، ضرر، برائی۔
"ڈول کس چیز کا ہے جس سے پانی پلانا دوش ہے۔"      ( ١٩٣٠ء، چار چاند، ١٠٢ )
٦ - کمی، نقص، عیب۔
"پشتو نغموں کی یہ انجانی، اچرج صدائیں . کڈھب معلوم ہونی چاہیں . یہ دوش پشتو موسیقی کا نہیں۔"      ( ١٩٦١ء، ہماری موسیقی، ١٣٨ )
٧ - الزام، تہمت۔
"اپنی بات غلط ہو جانے کے ڈر سے دوسروں کو دوش دینے کے لیے کسی اور کا سہارا لیتا ہے۔"      ( ١٩٨٦ء، نگار، کراچی، جولائی، ٣١ )
  • Fault
  • vice
  • defect
  • bad or noxious quality
  • blemish;  blame
  • accusation
  • reproach
  • calumny;  badness
  • wickedness
  • sinfulness;  offense
  • transgression
  • wrong
  • sin
  • guilt;  crime;  damage
  • harm
  • determent;  bad consequence;  morbid affection
  • disease;  disorders of the humors of the body
  • defect in the functions of the wind
  • or the bile
  • or the phlegm
  • or the circulation.