دوش[2]

( دوش[2] )
{ دوش (و مجہول) }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے اسم جامد ہے۔ اردو میں ساخت اور معنی کے اعتبار سے بعینہ داخل ہوا۔ اردو میں سب سے پہلے ١٦٤٥ء کو "قصۂ بے نظیر" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - کندھا، مونڈھا۔
"قیصر صاحب جب میرٹھ میں تھے تو ان پر کیسی پھبن تھی . زلفیں دوش کو چھوتی ہوئیں . سب سے الگ۔"      ( ١٩٨٤ء، زمین اور فلک اور، ٤٨ )
٢ - محور حامل؛ توپ کے دونوں پہلوؤں میں لگے ہوئے اسطور نے جن کی چول پر وہ رخ موڑنے کے لیے گردش کرتی ہے۔
"یہ گردش دوش یا محور ہامل کندھوں ٹرونئینر پر ہوتی ہے ان میں سے ایک دوش کھوکھلا ہوتا ہے۔"      ( ١٩٧٣ء، فولاد سازی، ١٧١ )
  • the arm
  • the shoulder