دمہ

( دَمَہ )
{ دَمَہ }
( فارسی )

تفصیلات


دَم  دَمَہ

فارسی زبان سے اسم جامد 'دم' کے ساتھ 'ہ' بطور لاحقۂ نسبت لگائی گئی ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٦١١ء کو قلی قطب شاہ کے کلیات میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : دَمے [دَمے]
جمع   : دَمے [دَمے]
جمع غیر ندائی   : دَموں [دَموں (و مجہول)]
١ - دھونکنی، پھونکنی، دھونکنیوں کی جوڑی۔
"ظلمات کا بھی پیٹ پھول کر دمہ ہو گیا اور زبان اینٹھ گئی۔"      ( ١٨٨٣ء، طلسم ہوشربا، ٥٩١:١ )
٢ - پھیپھڑے کا مرض جس میں سانس رک کر آتا ہے، ضیق النفس۔
"زبیر احمد دمے کے پرانے مریض تھے۔"      ( ١٩٥٧ء، آنچل، مٹی، ١٧٨ )
٣ - پرندے کی بولی یا آواز جس سے وہ اپنے ہم جنس کو شکاری پرندے کی آمد کی خبر دیتا ہے، چمک۔     
"پرندوں کی اس خبردار کرنے والی آواز کو چمک یا دمہ کہتے ہیں۔"     رجوع کریں:  چمک ( ١٨٩٧ء، سیرپرند، ٢٥ )
  • Pair of bellows;  asthma.