دمکنا

( دَمَکْنا )
{ دَمَک + نا }
( پراکرت )

تفصیلات


دَمَک  دَمَکْنا

پراکرت سے ماخوذ اسم 'دمک' کے ساتھ اردو قاعدے کے تحت 'نا' بطور علامت مصدر لگانے سے مصدر 'دمکنا' بنا۔ اردو میں ١٦٧٩ء کو "دیوان شاہ سلطان ثانی" میں مستعمل ملتا ہے۔

فعل لازم
١ - چمکنا، درخشاں ہونا، تاباں ہونا۔
"آسمان پر ستارے دمکنے لگے ملائک تماشے کے لیے آئے۔"      ( ١٩٨١ء، رزمیہ داستانیں، ٤٦٣ )
٢ - [ مجازا ]  شاداب ہونا؛ بارونق ہونا۔
"اہل جنت کو جن کے چہرے خوشی سے دمکتے ہوں گے یہ آواز سنائی دے گی۔"      ( ١٩٣٢ء، سیرۃ النبیۖ، ٤، ٨٤٥ )
٣ - سانس لینا، آواز پیدا کرنا۔
 مر چلا ہے دودھ بن بالک نہ کچھ باقی رہا کب تلک اس میں رمق دم کا دمکنا دیکھیے      ( ١٧٣٢ء، کربل کتھا، ١٨٦ )