دمیدہ

( دَمِیدَہ )
{ دَمی + دَہ }
( فارسی )

تفصیلات


دَمِیدَن  دَمِیدَہ

فارسی زبان سے مشتق اسم صفت ہے۔ فارسی، مصدر 'دمیدن' سے حالیہ تمام ہے اردو میں ١٨١٨ء کو انشا کے کلیات میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی
١ - چلتا ہوا، جاری، رواں دواں۔
 اگ آہِ پیچیدہ و تپیدہ زمیں کے سینے میں ناکشیدہ نجانے کیوں کر ہوئی دمیدہ بوئے گل بن کے مسکرائی      ( ١٩٦٦ء، فکر جمیل، ١٥٢ )
٢ - پھونکا ہوا۔
 کیوں کر پَرِ مَلَک نہ جلیں میری آہ سے نالہ نہیں یہ حشر کا پر دسیدہ ہے      ( ١٨٦١ء، کلیات اختر، ٦٩٥ )
٣ - اگا ہوا، پھوٹا ہوا، کھلا ہوا، کھلنے والا، ظاہر، نمودار۔
"ہزار گل مدعا چمن میں دلہائے خلائق کے دمیدہ ہوتے تھے۔"      ( ١٨٩٠ء، بوستان خیال، ٢٠:٤ )
٤ - ظاہر، نمودار؛ آغاز، سپیدۂ سحر۔
 سفید بال ہوئے شب ہوئی جوانی کی دمیدہ صبح ہوئی چونک سر پہ دھوپ آئی      ( ١٨٧٨ء، سخن بے مثال، ١١٩ )
٥ - بڑھا ہوا، پھیلا ہوا۔
 چشم اشک آفریں کو کیا کہیے جام لبریز ہے دمیدۂ شوق      ( ١٩٣٥ء، ناز (علی نواز) گلدستۂ ناز، ١٠٥ )
  • blown
  • blossomed
  • shot forth
  • opened out
  • expanded
  • vegetated (a plant);  blowing
  • blossoming;  sprouting;  broken forth (as the dawn of day).