ڈھول ڈھمکا

( ڈھول ڈَھمَکّا )
{ ڈھول (و مجہول) + ڈَھمَک + کا }

تفصیلات


پراکرت زبان سے ماخوذ اسم 'ڈھول' کے ساتھ حکایت الصوت سے ماخوذ اسم صوت 'ڈھمک' کے آگے 'ا' بطور لاحقۂ نسبت لگانے سے مرکب ہوا۔ جو اردو میں بطورِ اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٨٩١ء کو "ایامٰی" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - باجا گاجا، دھوم دھام۔
"ڈھول ڈھمکا، ڈھما چوکڑی، کیسی کیسی سندری ناری خاک دھول میں اٹی ٹیسورنگ میں بھیگی کالونس میں لہسی بالکل بیچا لگ رہی تھی۔"      ( ١٩٨٣ء، زمیں اور فلک اور، ١٠٢ )
٢ - بہت اسباب یا سامان، پانی جو چرسے کے ذریعے سے نکلے (بعض اطرافِ جنوب میں یہ دستور ہے کہ بسبب پانی دور ہو جانے کے جب ڈول کنوئیں سے باہر آتا ہے تو ڈھول بجاتے ہیں تاکہ ڈول کھینچنے والے کو معلوم ہو جائے کہ اب ڈول کنویں سے باہر آ گیا)۔ (نوراللغات؛ جامع اللغات)