ڈھولا

( ڈھولا )
{ ڈھو (و مجہول) + لا }

تفصیلات


پراکرت زبان سے ماخوذ اسم ہے جو اردو میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ تحریراً سب سے پہلے ١٨٨٨ء کو طلسم ہوشربا میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : ڈھولے [ڈھو (و مجہول) + لے]
جمع   : ڈھولے [ڈھو (و مجہول) + لے]
جمع غیر ندائی   : ڈھولوں [ڈھو (و مجہول) + لوں (و مجہول)]
١ - پنجابی لوک گیت جو ماہیہ ٹپہ کی طرز کا ہوتا ہے اور شادی بیاہ یا خوشی کے موقع پر گایا جاتا ہے۔
"یہ تھا میرا پنجاب جس کی ہواؤں میں ڈھولے . کے اشتیاق انگیز بول اور سرسموئے ہوئے تھے۔"      ( ١٩٨٥ء، پنجاب کا مقدمہ، ١٨ )
٢ - [ مجازا ]  دھوکہ دینے والا عاشق، منہ لگا شخص؛ دلارا بچّہ، لڑکا، بیٹا۔ (پلیٹس؛ جامع اللغات)
٣ - ڈولی، ڈولا
"اگیاری روشن ہوئی بیر آنے لگے ڈھولے جھومنے لگے، ڈُمرو بجا۔"      ( ١٨٨٨ء، طلسم ہوشربا، ٧٩٠:٣ )
  • Name of a famous lover;  a lover
  • gallant;  a gay deceiver;  a darling
  • pet;  boy
  • child
  • son.