ڈھولنا

( ڈھولْنا )
{ ڈھول (و مجہول) + نا }
( مقامی )

تفصیلات


مقامی زبانوں سے ماخوذ اسم ہے۔ جو اردو میں بھی اپنے اصل مفہوم کے ساتھ عربی رسم الخط میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ تحریراً سب سے پہلے ١٧٤٧ء کو "دیوان قاسم" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : ڈھولْنے [ڈھول (و مجہول) + نے]
جمع   : ڈھولْنے [ڈھول (و مجہول) + نے]
جمع غیر ندائی   : ڈھولْنوں [ڈھول (و مجہول) + نوں]
١ - ڈھول کی وضع کا بنا ہوا گلے میں پہننے کا زیور، لمبا سونے چاندی کا زیور جو ریشم کے تاروں سے گندھوا کر ہار کی طرح پہنا جاتا ہے۔
"ڈھولنے کی جسامت تین انچ کی ہوتی ہے اور اس کا قطر ایک انچ تک ہوتا ہے۔"      ( ١٩٧٩ء، عورت اور اردو زبان، ١٦٩ )
٢ - گلے میں ڈالنے کا وہ نقرئی یا طلائی گول یا چوکور یا ہشت پہل تعویذ جس میں چھوٹی تقطیع کا قرآن پاک یا کوئی دعا رکھی ہوئی ہو۔
 ہفت ہیکل میں ڈھولنے کی وہ شان حافظِ جاں ہے جس میں خود قرآن      ( ١٩٣٣ء، عروج (دولہا صاحب) (مہذب اللغات) )
٣ - [ عو ]  بڑی روٹی، قرآن شریف، پانی رکھنے یا لانے کا گھڑے کی شکل کا پیتل کا برتن (فرہنگِ آصفیہ؛ علمی اردو لغت)
  • A small amulet in the shape of a drum.